مجھ میں کتنے گانو بسے ہیں
کچھ اجڑے ، آباد گھنے کچھ
کچھ یونہی ناراض کھڈے ہیں
بہتے دریا جنگل سنے
خشق ڈالیاں پھول سنہرے
دھوپ چھاؤں کے رنگ گھنیرے
اک دنیا ہے میرے اندر
میں کیول شاہد ہوں جس میں
اٹھتی گرتی لہروں کا دکھ
اگتے ڈھلتے سورج کا غم
بے زَبان پتوں کا گِرْیہ
اک دنیا ہے میرے اندر
میں کیول شاہد ہوں جس میں
مزہ پر ٹھہرے جو آنسو
دھندلاے انکھوں کے دریا
دیر تلک پھر بیٹھے گمسم
ساتھ جہاں تک ٹھہرا ، ٹھہرے
گلے ملے ،پھر نکلے ہمدم
اپنا اپنا کرب سنجویے
اک دنیا تھے میرے اندر
میں کیول شاہد تھا جس میں
اننت ڈ'ھولے
No comments:
Post a Comment