کوئی کہدے تو بس بگڑتا ہوں
ورنہ ہر گام پر پھسلتا ہوں
پھر اسی راہ پر نکلتا ہوں
پھر اسی کھیل میں الجھتا ہوں
اِس سے بہتر ہو کیا کے خوابوں میں
اُس سے ملتا ہوں بات کرتا ہوں
دھوپ ایسی سراب بھی پگھلے
خوشق دریا سے گُھونٹ بھرتا ہوں
دن سرکتا ہے رات ڈھلتی ہے
ایک میں ہوں کے سر پٹکتا ہوں
بس کے آساں ہے مجھکو سمجھانا
ہر کھلونے سے جو بہلتا ہوں
اننت ڈھَوَلے
گھونٹ بھرنا
اننت ڈھاولے